وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
اور وہ عورت جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اسے اور اس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔“
ف 5۔ یعنی نکاح سے بھی اور ناجائز صورتوں سے بھی۔ یہاں احصان (عصمت قائم رکھنے) کا لفظ عام معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ قرآن نے متعدد مقامات پر تصریح کی ہے کہ حضرت مریم ( علیہا السلام) نے نہ نکاح کیا اور نہ وہ حرام کاری کی مرتکب ہوئیں۔ (مریم : 20) ف 6۔ مراد ہے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی روح جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے پھونکی تھی لیکن تعظیم و تشریف کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے پھونکنے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مزید دیکھئے (نساء : 171) ف 7۔ قدرت الہٰی کی نشانی وه اس معنی میں تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کی پیدائش بن باپ کے ہوئی تھی۔ اگر حضرت مریم شادی شدہ ہوتیں اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش باپ سے ہوئی ہوتی تو ان کی کیا خصوصیت ہوتی جس کا ذکر سارے جہان کیلئے بطور نشانی کیا جاتا۔ پھر دونوں کو ” ءَايَةٗ “ (ایک نشانی) کہنا باعتبار قصہ کے ہے یعنی ہم نے ان دونوں کے قصے کو آیۃ بنادیا۔ (قرطبی)