سورة طه - آیت 114

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ بادشاہ حقیقی بلند وبالا ہے۔ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کرو جب تک کہ آپ کی طرف اس کی وحی مکمل نہ ہوجائے اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا فرما۔“

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5 مفسرین کہتے ہیں کہ جب حضرت جبرئیل نبی ﷺ کو قرآن کی متعدد آیات لا کر سناتے تو آپ شدت شوق سے یا اس خیال سے کہ بھول نہ جائیں حضرت جبرئیل کی قرأت مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں بڑھنا شروع کردیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو متنبہ فرمایا کہ ایسا نہ کیجیے بلکہ وحی کو مکمل ہو لینے دیجیے جیسا کہ دوسری جگہ سورۃ القیامۃ 18-16) میں فرمایاİلَا تُحَرِّكۡ بِهِۦ لِسَانَكَ لِتَعۡجَلَ بِهِۦٓ ١٦ إِنَّ عَلَيۡنَا جَمۡعَهُۥ وَقُرۡءَانَهُۥ ١٧ فَإِذَا قَرَأۡنَٰهُ فَٱتَّبِعۡ قُرۡءَانَهُۥĬقرآن اترتے وقت اپنی زبان نہ ہلایا کیجیے، اسے جلدی سے یاد کرنے کے لئے (آپ کے دل میں) اس کا جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے پھر جب ہم (فرشتہ کے ذریعے) آپ کو پڑھ کر سنا چکیں تب آپ پڑھا کیجیے“ اس میں قرآن کی حفاظت اور سہو و نسیان سے اس کے مامون ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے : حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : اس کو پہلے منع فرمایا تھا سورۃ قیامۃ میں اور تسلی کردی تھی کہ اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں کو پہنچوانا ذمہ ہمارا ہے لیکن بندہ بشر ہے شاید بھول گئے ہوں پھر تقید کیا اور بھولنے پر مثل فرمائی آدم کی۔ (موضح) ف 6 علم سے مراد قرآن کا یا دین کا علم ہے اور یہ علم ایسی چیز ہے، جس کے زیادہ سے زیادہ مانگنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کسی اور کی کیا مجال کہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھ سکے۔ حضرت ابوہریرہ(رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔(«‌اللَّهُمَّ ‌انْفَعْنِي ‌بِمَا ‌عَلَّمْتنِي، ‌وَعَلِّمْنِي ‌مَا ‌يَنْفَعُنِي، ‌وَزِدْنِي عِلْمًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ) اے اللہ ! جو علم تو نے مجھے دیا ہے اس سے مجھے فائدہ دے اور مجھے وہ علم دے جو میرے لئے فائدہ مند ہو اور میرے علم میں اضافہ کر، اور ہر حال میں اللہ کا شکر ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابن مسعود یہ آیت پڑھتے تو فرماتے : اللَّهُمَّ زِدْني ‌إيمانًا وَفِقْهًا (معالم)