سورة البقرة - آیت 237

وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اگر تم عورتوں کو انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دو اور تم ان کا حق مہر بھی مقرر کرچکے ہو تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی ذمہ داری ہے تمہارا معاف کردینا تقو یٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور تم آپس کے احسان کو فراموش نہ کیا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 یہ دسری صورت ہے کہ مہر مقرر کیا جا چکا ہو اور شو ہر نے قبل از مسیس (مجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دی اس صورت میں عورت نصف مہر کی حقدار ہوگی ہاں اگر وہ عورت خود یا اس کے اولیا معاف کردیں تو دوسری بات ہے بعض نےİ بِيَدِهِۦ عُقۡدَةُ ٱلنِّكَاحِ Ĭسے شوہر مراد لیا ہے اور اس کی طرف سے عفویہ ہے کہ وہ اپنی خوشی سے پورا مہر دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور پھر، İوَأَن تَعۡفُوٓاْ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰۚĬ فرماکر شوہر کو تر غیب دی ہے کہ پورا مہر دے دینا ہی اقرب الی التقوی ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) مسئلہ: اگر اس صورت میں شوہر قبل از مسیس وفات پاجائے توبیوی پورے مہر کی حقدار ہوگی اسے ورثہ بھی ملے گا اوراس پر عدت بھی ہوگی جیسا کہ بروع بنت واشق کی حدیث میں ہے۔(شوکانی) واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی دو قسمیں اور ہیں (1) مہر مقرر ہوچکا تھا اور خاوند نے بعد ازمسیس طلاق دے دی۔ دیکھئے آیت 229۔ (2) عقد کے وقت مہر مقرر نہ تھا مگر بعد ازمسیس طلاق دی اس صورت میں عورت مہر مثل کی حقدار ہوگی یعنی جتنا مہر عموما اس کے خااندان کی عورتوں کا مقرر ہوتا ہے اس کے مطابق اسے مہر دلوایا جائے گا جیسا کہ سورت نسا آیت 24 کے تحت مذکور ہوگا۔ (شوکانی)