فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
پھر اگر اس کو تیسری بار طلاق دے دے تو اب اس کے لیے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے۔ پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو باہم رجوع کرلینے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ یہ یقین کرلیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لیے بیان کرتا ہے
ف 1 یعنی تیسری طلاق کے بعد اب جب تک عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کے بعد ایک مرتبہ مجامعت سے لذت اندوز نہ ہو لے اور پھر دوسرا خاوند اسے از خود طلاق نہ دے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح حلال نہیں ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دوسرے خاوند سے اس غرض سے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے کیونکہ ایسے نکاح پر تو احادیث میں لعنت آئی ہے بلکہ دوسرے خاوند سے مستقل طور پر اس کی بیوی بن کر رہنے کے لیے نکاح کرے اور پھر کسی وجہ سے اسے طلاق ہوجائے یا دوسرا خاوند فوت ہوجائے تو اب سابقہ خاوند کے لیے اس سے نکاح جائز ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) مسئلہ: ایک مجلس میں بیک وقت تین طلاق دی جائیں تو وہ ایک ہی شمار ہوگی جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک مرفوع روایت میں ثابت ہے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ رکانۃ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دیں، آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا اگر چاہو تو رجوع کرسکتے ہو۔ (ج 5 ص 163) نیز دیکھئے فتاوی ابن تیمیہ (ج 3 ص 13۔25۔36۔43) اغاثه اللہفان 183۔338) ف 2 یعنی دوسرا خاوند از خود طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو عدت کے بعد وہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے لیکن حلالہ کی شرط سے جو نکاح ہوگا وہ باطل ہے۔ حلالہ کرنے اورکروانے والے پر آنحضرت (ﷺ) نے لعنت فرمائی ہے۔ (مسند احمد وغیرہ )