الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق دو مرتبہ ہے پھر یا تو اچھے انداز سے رکھنا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو تم نے ان عورتوں کو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھنے کا اندیشہ ہو‘ اس لیے اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لیے کچھ دے دے۔ اس میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ اللہ کی حدود ہیں خبر دار ان سے آگے نہ بڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والے لوگ ہی تو ظالم ہیں
ف5 حضرت عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کی روایات کے بموجب ابتدائے ہجرت میں جا ہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہو تا تھا اس صورت حال کو روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے اس کے بعد’’ إِمۡسَاكُۢ بِمَعۡرُوفٍ ‘‘یعنی یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا’’ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَٰنٖ‘‘ یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مر فوعا ثابت ہے اور ابن جریر نے اس کو ترجیح دی ہے۔ بعض نے’’ أَوۡ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَٰنٖ ‘‘سے یہ مراد لی ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتٰی کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت خود بخود اس سے الگ ہوجائے (ابن جریر۔ ابن کثیر ) ف 6 عورت اگر خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اور خاوند طلاق دیدے تو اسے طلاق خلع کہتے ہیں یوں تو خاوند کے لیے عورت کو تنگ کر کے حق مہر واپس لینا جائز نہیں ہے مگر خلع کی صورت میں خاوند معاوضہ لے کر طلاق پر راضی ہو تو یہ واپسی جائز ہے۔ مسئلہ: طلاق خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ (ترمذی )