وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
” اور اس کتاب میں ابراہیم کا واقعہ بیان کیجیے یقیناً وہ سچے نبی تھے۔“ (٤١)
ف 5 اس سورۃ کا اصل موضوع توحید و نبوت اور حشر کے واقعات بیان کرنا ہے۔ تو حسد کے منکر دو قسم کے لوگ تھے ایک یہود و نصاری جنہوں نے حرت عیسیٰ اور عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا و راس طرح سڑک میں مبتلا ہوگئے۔ چنانچہ پچھلے رکوع میں حضرت مریم اور مسیح کا قصہ بیان کر کے ان کے غلط عقائط کی تردید فرمائی۔ دوسرے مشرکین عرب جو بت پرستی میں مبتلا تھے اور بایں عقیدہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہونے کے مدعی تھے۔ یہاں سے حضرت ابراہیم کا قصہ بیان کر کے ان کی تردید مقصود ہے تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی اور بالآخر وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں ہجرت کی مگر تم ہو کہ ایک طرف تو ان کی اولاد میں سے ہوا اور ان کے دین پر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہو لیکن دوسری طرف بت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہو اور توحید کی آواز اٹھانے والوں کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر رہے ہو۔ اگر تم واقعی حضرت ابراہیم کے دین کے پیرو ہو تو یہ شرک اور توحید پرستوں سے دشمنی چہ معنی وارد؟