وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
لوگ تم سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرمادیں کہ وہ گندگی ہے‘ حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو پاک ہونے پر ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے اجازت دی ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے
ف 3 حیض کہتے ہیں خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اور عادت کے خلاف جو خون آوے وہ استحاضہ (بیماری) ہے حیض کے دونوں میں عورت سے مجامعت کرنا اور عورت کے لیے نماز روزہ سب حرام ہیں۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے پینے اور گھر میں اس کے ساتھ اختلاط کو جائز نہیں سمجھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں آنحضرت (ﷺ) سے دریافت کیا تو یہ آیت اتری۔ اس پر آپ (ﷺ) نے فرمایا : حالت حیض میں جماع کے علاوہ ہر طرح سے عورت کے ساتھ اختلاط جائز ہے اور اس حالت میں الگ رہنے کا مطلب صرف ترک مجامعت ہے۔ ( ابن کثیر بحوالہ مسلم وغیرہ) ف 4 یعنی جب تک پاک ہو کر غسل نہ کرلیں اس پر جمیع علماء کا اتفاق ہے۔ صرف امام ابو حنیفہ اس مسئلہ میں دوسروں سے منفرد ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر حیض اپنی پوری مدت میں یعنی دس دن پر موقوف ہو تو غسل سے پہلے ہی مجامعت درست ہے مگر یہ قول تَطَهَّرۡنَ کے خلاف ہے جس كے معنی اچھی طرح پاک ہوجانا کے ہیں۔ (ابن کثیر۔، ابن العربی) ف 5 یعنی عورت سے اس کی آگے کی جانب شرم گاہ میں مجا معت کرو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے غیر فطری مجامعت حرام ہے۔ (ابن کثیر )