يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا
اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ (٢٨)
ف 5 حضرت موسیٰ کے بھائی ہارون کی بہن تو ہو نہیں سکتی کیونکہ ان کا زمانہ حضرت مریم سے سینکڑوں برس پہلے کا ہے اس لئے مفسرین نے ان الفاظ کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت مریم کے کسی بھائی کا نام ہارون ہوجیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ بنی اسرائیل اپنے نام اپنے انبیاء و صلحا کے نام پر رکھ لیتے تھے۔ مسلم ترمذی) یا ہوسکتا ہے کہ زہد و عبادت میں تشبیہ کے طور پر اسے اخت ہارون“ کہہ دیا ہو۔ یا ممکن ہے حضرت ہارون کے خاندان سے ہوں اس لئے انہیں عربی محاورہ کے مطابق اخت ہارون کہہ دیا۔ جیسا کہ جب کوئی آدمی مضر قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو تو اسے اخا مضر کہہ کر پکار لیتے ہیں۔ گویہ صحیح ہے کہ حضرت موسیٰ ٰو ہارون کی ایک بہن کا نام بھی مریم تھا مگر وہ قطعاً مراد نہیں ہو سکتی اور نہ وہ حضرت عیسیٰ کی والدہ ہی بن سکتی ہے۔ (ابن کثیر شوکانی) ف 6 یعنی تیرے خادنان میں کوئی بھی بیکار نہیں گزرا۔ تیرے ماں باپ دونوں نہایت نیک اور پرہیز گار تھے پھر تو نے یہ برے لچھن کہاں سے سیکھ لئے؟ (وحیدی)