وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
” اور جب موسیٰ نے اپنے جوان ساتھی سے کہا میں نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچ جاؤں یا ایک مدت تک چلتا رہوں گا۔“ (٦٠) ”
ف 6 یہاں موسیٰ سے مراد اللہ کے رسول حضرت موسیٰ بن عمران ہی ہیں۔ جیسا کہ صحیحین کی روایت میں حضرت ابی بن کعب نے اسے خود نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ دو سمندروں سے مراد بعض مفسرین نے بحر فارس اور بحر روم ہی لئے ہیں لیکن دونوں ملتے نہیں ہیں۔ شاید ان کے ملنے کی جگہ سے وہ جگہ مراد ہو جہاں دونوں کا فاصلہ سے کم رہ جات اہے۔ بعض نے ان سے دجلہ و فرات اور بعض نے افریقا کے دو دریا مراد لئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرت موسیٰ کے سفر کا سبب بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ سے ایک خطبہ میں ایک سائل نے سوال کیا : کیا زمین پر تجھ سے زیادہ کوئی عالم بھی ہے تو اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے فرمایا :” نہیں“ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز ناگوار گزری چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ جہاں دو سمندر یا دریا ملتے ہیں وہاں میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے عرض کی، اے میرے رب تیرے اس بندے سے میری کیونکہ ملاقات ہو سکتی ہے۔ حکم ہوا کہ سفر شروع کرو اور ایک مچھلی بھنی ہوئی اپنے ساتھ رکھ لو جہاں یہ مچھلی زندہ ہوجائے وہیں متہیں ہمارا بندہ مل جائے گا چنانچہ حضرت موسیٰ نے مچھلی لے کر سفر شروع کیا اور اپنے ساتھ خادم یوشع بن نون کرلیا۔ (ابن کثیر) یوسع بن نون وہی ہیں جو حضرت موسیٰکے بعد ان کے خلیفہ بنے۔ (دیکھیے سورۃ مائدہ :23)