وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
” اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان سے مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے اور یہ کہ بے شک قیامت میں کوئی شک نہیں۔ جب وہ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو کہنے لگے ان پر ایک عمارت بنادو۔ ان کا رب خوب جانتا ہے جو لوگ ان کے معاملے پر غالب ہوئے انھوں نے کہا ہم ضرور یہاں مسجد بنائیں گے۔“
ف 6 تمہاری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی۔ ف 7 یعنی جس طرح ہم نے ان کو ثابت قدم رکھا اور حیرت انگیز طریقہ سے سلائے رکھا اسی طرح ہم نے شہروالوں کو ان کی حقیقت حال اور جگہ سے مطلع کردیا۔ بہت سے مفسرین کا بیان ہے کہ ہوا یہ کہ جب وہ شخص کھانا خرینے کے لئے روانہ ہوا تو اس نے دیکھا کہ شہر کے راستے لوگوں کی تہذیب اور رہن سہن زبان و لباس ہر چیز بدل چکی ہے۔ اس نے خیال کیا کہ شاید میں پاگل ہوگیا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں۔ بالآخر وہ ایک شہر پہنچا اور ایک دکاندار سے کھانا خریدنے لگا اور اس نے سکہ نکالا تو دکاندار ششد رہ گیا اور اس نے ایک دوسرے دکاندار کو بلایا بالآخر کچھ لوگ جمع ہوگئے اور انہیں شک گزرا کہ شاید اس شخص کو کہیں سے پرانا خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ مگر جب اس نے بتایا کہ میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں اور کل ہی یہاں دقیانوس بادشاہ کو چھوڑ کر گیا ہوں تو لوگوں کی حیرت اور بڑھ گئی اور وہ اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ وہاں جب پوچھ گچھ ہوئی تو سب معاملہ کھل گیا اور سارے شہر میں یہ خبر پھیل گئی۔ اس لئے اصحاب کہف کو دیکھنے اور انہیں سلام کرنے کے لئے بادشاہ اور اسکے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا۔ بادشاہ نے غار میں داخل ہو کر ان لوگوں سے سلام و معانقہ کیا جس سے وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر وہ دوبارہ اپنی جگہ لیٹ گئے اور اسی حال میں اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرلی۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) ف 8 یعنی شہر والوں کو یقین آجائے۔ ف 9 کوئی کہتا تھا کہ مر کر پھر جی اٹھنا برحق ہے کوئی اس سے انکار کرتا اور کہتا کہ حشر صرف روح کا ہوگا بدن کا نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں اصحاب کہف کا حال آنکھوں سے دکھا کر یقین دلا دیا کہ قیامت آئے گی اور حشر روح اور بدن دونوں کا ہوگا۔ İ إِذۡ يَتَنَٰزَعُونَ بَيۡنَهُمۡ أَمۡرَهُمۡĬکے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب شہر والے اصحاب کہف کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ کیا یہ وفات پا چکے ہیں اور ان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟ (کبیر) ف 10 کہ یہ کون لوگ ہیں کب غار میں آئے اور اب مر جانے کے بعد کس جزا کے مستحق ہیں؟ ف 11 اور اس طرح ان کی یادگار باقی رکھیں گے۔ یہ قبروں پر مسجدیں بنانے کی جہالت اور بدعت ہر زمانہ میں جاری رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ غالب آنے والوں سے مراد وقت کے رئوسا اور مشرک ہی ہوں ورنہ اسلام میں تو قبروں پر یا بطور تبرک قبر کے پاس مسجد بنانا ہی حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ (بخاری و مسلم) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن بدترین مخلوق ہوں گے۔ (بخاری و مسلم) ایک حدیث میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور ان میں چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت فرمائے۔ (ابو دائود و ترمذی وغیرہ)