يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
” جس دن ہم لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے پھر جسے اس کا اعمالنامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا یہ لوگ اپنا اعمالنامہ پڑھیں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔“
ف 3 مثلاً یوں پکارا جائے گا :” اے محمد (ﷺ) کی امت، اے موسیٰ (علیہ السلام) کی امت والے ! علی ہذا القیاس یا اے قرآن کے ماننے والو ! اے توراۃ کے ماننے والو ! اے انجیل پر عمل کرنے والو۔“ بعضوں نے امام سے مراد ” نامہ اعمال“ لیا ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا :” İوَكُلَّ شَيۡءٍ أَحۡصَيۡنَٰهُ فِيٓ إِمَامٖ مُّبِينٖĬ اور ہر چیز کو ہم نے ایک واضح امام میں شمار کر رکھا ہے۔ (یٰس :12) حافظ ابن کثیر نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے اور امام سے مراد ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کی دنیا میں پیروی کی جاتی ہے۔ چنانچہ اہل ایمان کے امام انبیاء علیہم السلام اور کفار و مشرکین کے امام ان کے سرداران باطل ہونگے جیسے فرمایا : İوَجَعَلۡنَٰهُمۡ أَئِمَّةٗ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلنَّارِĬ (قصص 41) سلف میں بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس آیت میں اصحاب حدیث کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کا امام محمد ﷺ کے سوا کوئی نہیں۔ (ابن کثیر) ف 4 اور وہ خوشی سے اپنا نامہ اعمال دوسرے کو دکھائیں گے جیسا سورۃ حاقہ آیت 19 میں مذکور ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ نساء 49)