سورة الإسراء - آیت 33

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل مت کرو مگر حق کے ساتھ اور جو مظلوم قتل کردیا جائے ہم نے اس کے ولی کے لیے اختیار رکھا ہے۔ پس وہ قتل کرنے میں حد سے نہ بڑھے، یقیناً وہ مدد دیا ہوا ہے۔“

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3 مراد ہے ہر انسانی جان حتی کہ آدمی کی اپنی جان بھی اسلام نے خود کشی کو بھی حرار قرار دیا ہے۔ جیسا کہ متعدد احادیث میں وارد ہے۔ ف 4 جس کیلئے شریعت نے جان لینا جائز قرار دیا یہ۔ حدیث میں ہے : (لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلا بِإِحْدَى ثَلاثٍ: ‌النَّفْسِ ‌بِالنَّفْسِ، ‌وَالثَّيِّبِ ‌الزَّانِي وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ) کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے الایہ کہ قصاص میں قتل کیا جائے، یا شادی شدہ ہو کر زنا کرے۔ یا مرتد ہوجائے۔ مگر یہ حصر حقیقی نہیں ہے، بلکہ بعض دوسرے جرائم میں بھی قتل کا جواز ثابت ہے۔ (روح) ف 5 مثلاً قاتل کو عذاب دے کر قتل کرے یا جوش انتقام میں اس کے علاوه اس کے عزیزوں کو بھی مار ڈالے۔ ف 6 اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے قصاص کا قانون مقرر کیا ہے اور اسلامی حکومت کے کارفرمائوں کو اس کی مدد اور داد رسی کا حکم دیا ہے۔