وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
” اور آپ کے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ” اف“ نہ کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے نرم گفتگو کیجیے۔“ (٢٣) ”
ف 15 بظاہر خطاب تو آنحضرت کو ہے لیکن مراد آپ کی امت کو سمجھاتا ہے کہ شرک معاف نہیں ہوگا اور ہر مشرک اللہ کے ہاں ذلیل و خوار ہوگا۔ ف 16 یعنی قطعی حکم دیا اور فیصلہ کردیا ہے۔ ف 17 یا اس کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہو۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم پوجا کا بھی ہے اور بندگی کا بھی۔ ف 1 ماں باپ چاہے بوڑھے ہوں یا جوان، ہر حال میں ان کا ادب کرنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا فرض اور انہیں جھڑکنا گناہ ہے۔ مگر چونکہ بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے اس لئے خاص طور پر بڑھاپے کا ذکر فرمای اگیا۔ ف 2 جو اکتاہٹ اور بے ادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے۔ پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہوسکتا ہے ف 3 سعید بن مسیب فرماتے ہیں : ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار نوکر اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔ (معالم التنزیل)