وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
” اور جس دن ہم ہر امت میں ان پر انہی میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور آپ کو ان پر گواہ بنائیں گے اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔“
ف 2 یعنی ان کا پیغمبر جو ان پر اتمام حجت کے لئے گواہی دے گا کہ ان لوگوں نے حق و باطل کی کشمکش میں کیا رویہ اختیار کیا ۔ ف 3 صحیحین میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے عبداللہ بن مسعود(رض) کو سورۃ نسا تلاوت کرنے کا حکم دیا۔ جب وہ اسی سورت کی اس مضمون والی آیت 41 پر پہنچے تو آنحضرتﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ زمانہ فترت میں بھی توحید پرست لوگ رہے ہیں جو قیامت کے دن بطور شاہد پیش ہوں گے واللہ اعلم دیکھیے سورۃ بقرہ آیت 43 و نسا آیت 41 ف 4 یعنی حلال و حرام اور ہر اس چیز کا بیان ہے جس پر دنیا و آخرت میں انسان کی ہدایت و ضلالت اور فلاح و خسران کا انحصار ہے پھر جن احکام کو قرآن نے مجملاً بیان کیا ہے یا ان کے بیان کو چھوڑ دیا ہے۔ ان میں پیغمبر کی اطاعت کو فرض قرار دے کر سنت کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے۔( شوکانی)