ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
” پھر ہر قسم کے پھلوں سے کھائے اور اپنے رب کے راستے پر چلے جو آسان کیے ہوئے ہیں ان کے پیٹوں سے پینے کیلئے شہد نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں۔“
ف 6 شہد کی مکھیاں ایک عجیب و غریب طریقہ سے اپنا کام کرتی ہیں۔ پہلے چھتا بناتی ہیں پھر سب مل کر ایک بڑی مکھی کو اپنا سردار مقرر کرتی ہیں جسے ” یعسوب“ کہا جاتا ہے۔ پھر اس کے ماتحت چھتا میں شہد بھرنا شروع کرتی ہیں۔ اسی کی طرف یہاں اشارہ ہے۔ (ابن کثیر) ف 7 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات شہد کی مکھیاں رس چوسنے کے لئے بہت دور نکل جاتی ہیں اور پھر بے تکلف اپنے چھتا میں واپس آجاتی ہیں نہ راستہ بھولتی ہیں اور نہ کوئی مکھی اپنے چھتے کے علاوہ دوسرے چھتے میں داخل ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 یعنی کوئی شہد سفید ہوتا ہے کوئی سرخ اور کوئی زرد اور یہ اختلاف محض صانع حکیم کی قدرت کا مظہر ہے۔ (روح) ف 9 شہد ایک مفید اور لذیذ غذا بھی ہے اور ایک فائدہ مند اور صحت بخش دوا بھی۔ اس کے بہت سی بیماریوں میں شفا بخش ہونے کے بارے میں متعدد احادیث بھی ثابت ہیں۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت نے فرمایا : شفا تین چیزوں میں ہے فصد کھلوانے میں شہد کے پینے میں اور آگ سے داغنے میں اور میں اپنی امت کو اگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ اسی طرح ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے ایک شخص کے لئے شہد تجویز فرمایا۔ شہد کے استعمال سے اس کی استہال کی تکلیف بڑھ گئی۔ اس کے دو تین مرتبہ آنحضرتﷺ کے سامنے تردد ظاہر کرنے پر آنحضرتﷺ نے فرمایا :” اللہ نے سچ فرمایا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے تم اسے شہد پلاتے رہو۔“ اس نے مزید شہد پلایا اور وہ تندرست ہوگیا۔ (بخاری مسلم) ف 10 یعنی جس طرح جانوروں کے پیٹ سے دودھ، انگوروں کھجوروں سے رزق حسن اور مکھی کے پیٹ سے شہد پیدا ہوتا ہے اسی طرح اس قرآن سے جاہلوں کی اولاد سے عالم پیدا ہوں گے۔ دور نبوت میں یہی ہوا اور کافروں کی اولاد کامل ہوئی(کذا دفی الموضح)۔