وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ
” اور سیدھا راستہ بتلانا اللہ کے ذمہ ہے اور کچھ ان میں ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔“
ف 2 یعنی اپنے بندوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنا اللہ ہی کے ذمے ہے یا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والا ہے۔“ اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے جسمانی ضروریات پوری کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے اسی طرح اس کی ہدایت کا راستہ بھی متعین کردیا ہے۔ ف 3 یا بعض لوگ سیدھی راہ چھوڑ کر حق سے انحراف کر رهے ہیں اس میں تمام گمراہ فرقے داخل ہیں موضح میں ہے کہ : اللہ تعالیٰ کی قدر تیں (قدرت کے دلائل) دیکھ کر اس کی خوبیاں صاف نظر آتی ہیں مگر جس کی عقل میں کجی ہو وہ بہکا ہی رہتا ہے ف 4 مگر اس سے خلق کا اصل مقصد جو ابتلا ہے وہ فوت ہوجاتا ہے اس لئے کہ جس حد تک ہدایت کی راہ دکھانے کا تعلق تھا وہ تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر پورا کردیا مگر اس راہ پر چلنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا تاکہ اس کے اعمال پر جزا مرتب ہو سکے۔