الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ
”جنہوں نے کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔“
ف 7 یعنی کفار مکہ کے چالیس یا سولہ آدمی جنہوں نے ولید بن مغیرہ کے حکم سے حج کے موقع پر مکہ کے راستے بانٹ لئےتھے کہ آنحضرت تک کسی کو نہ پہنچنے دیں گے اور قرآن کی تکابوٹی کرنے کے یہ معنی ہیں کہ کسی نے قرآن کو سحر کہا اور کسی نے شعراء اور کسی نے پہلوں کی کہانیاں الغرض اس طرح انہوں نے قرآن کی تکذیب کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے اور مختلف عنوانوں سے اسے باطل کرنے کی کوشش کی۔ یا مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور قرآن کے حصے کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جو مرضی کے موافق ہوا اسے مان لیا اور جسے اپنی مرضی کے خلاف پایا اس سے انکار کردیا اور پہلے انبیاء کی مخالفت کی وجہ سے ان پر مختلف عذاب آچکے تھے اس صورت میں قرآن سے مطلق کتاب الٰہی بھی مراد رکھتی ہے۔İ أَفَتُؤۡمِنُونَ بِبَعۡضِ ٱلۡكِتَٰبِ وَتَكۡفُرُونَ بِبَعۡضٖۚ Ĭ (کذافی روح) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’ مُقۡتَسِمِينَ ‘‘کے معنی قسمیں کھانے والےهیں یعنی پہلی امتیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب پر قسمیں اٹھا رکھی تھیں۔ مثلاً صالح کی قوم کہ انہوں نے حضرت صالح اور ان کے اہل کو رات کے وقت قتل کردینے کیلئے قسمیں کھائیں۔ (دیکھئے نمل آیت 49) اور پہلی امتوں نے قرآن یعنی کتب سماویہ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے مطلب یہ کہ جیسے ہم نے ان پر عذاب اتارا اسی طرح کے عذاب سے انكوبھی ڈرا دیجیے (کذافی الوحیدی)