سورة البقرة - آیت 180

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہونے لگے اور وہ مال چھوڑ جائے تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کر جائے۔ پرہیزگاروں پر یہ لازم ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3 : جاہلی عرف کے مطابق اولاد کے سوا کوئی وارث نہیں بن سکتا تھا لہذا اس آیت میں والدین اور اقربا کے لیے وصیت فرض کردی تاکہ یہ بالکل محروم نہ رہ جائیں مگر وصیت کایہ حکم شروع زمانے میں دیا گیا تھا بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانون نازل فرمادیا۔ (دیکھئے سورت النساء 1) تو ورثہ کے حق میں وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا چنانچہ آنحضرت (ﷺ)نے آیت میراث کے نازل ہوکے بعد فرمایا :( إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّه، فَلَا وَصِيَّةَ ‌لِوَارِثِ)۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا ہے۔ لہذا اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) البتہ غیروارث رشتہ داروں کے حق میں اب بھی وصیت جائز ہے مگر وصیت کایہ حق کل مال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کے لیے نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت سعد نے اپنی بیماری کے دوران میں آنحضرت (ﷺ) سے وصیت کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا :( الثُّلُثُ، ‌وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ) ۔ کہ ایک ثلث (تہائی) کی اجازت ہے اور یہ بھی بہت ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری )