كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہونے لگے اور وہ مال چھوڑ جائے تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کر جائے۔ پرہیزگاروں پر یہ لازم ہے
ف 3 جاہلی عرف کے مطابق اولاد کے سوا کوئی وارث نہیں بن سکتا تھا لہذا اس آیت میں والدین اور اقربا کے لیے وصیت فرض کردی تاکہ یہ بالکل محروم نہ رہ جائیں مگر وصیت کایہ حکم شروع زمانے میں دیا گیا تھا بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانو نازل فرمادیا۔ (دیکھئے سورت النساء 1) تو ورثہ کے حق میں وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے آیت میراث کے نازل ہوکے بعد فرمایا ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلا وصتیتہ لوارث۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدایا ہے۔ لہذا ابن کسی کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) البتہ غیروارث رشتہ داروں کے حق میں اب بھی وصیت جائز ہے مگر وصیت کایہ حق کل مال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کے لیے نہیں ہے۔ نچانچہ حضرت سعد نے اپنی بیماری کے دوران میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وصیت کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا : لثلث والثنث کثیر۔ کہ ایک لیک ثلث (تہائی) کی اجازت ہے اور یہ بھی بہت ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری )