يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے آزاد، آزاد کے بدلے غلام، غلام کے بدلے، عورت، عورت کے بدلے، ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو زیادتی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا
ف 3 زمانہ جاہلیت میں کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے کہ آدمی کو قتل کر ڈالتا تو اس قبیلہ کے لوگ صرف قاتل کو قتل کرنے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اس کے بدلے متعدد آدمیوں کو قتل کئے بغیر صبر نہ کرتے سعید بن جبر کہتے ہیں اسلام سے پہلے دو عرب قبیلوں کی آپس میں جنگ ہوئی تھی ابھی انہوں نے آپس میں بدلہ نہ لیا تھا کہ مسلمان ہوگئے۔ ایک قبیلہ والوں نے قسم کھائی کہ جب تک ہم اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد آدمی کو اور عورت کے بدلے مدر کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی 9 اور بدلہ لینے میں تعداد سے منع فرمادیا ہے۔ القتلی اس کا واحد قتیل ہے جو معنی مقتول کے ہے۔ (م۔ ع) ف 4 اس آیت سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلام کے بدلے آزاد عورت کے بدلے مرد قتل نہیں ہوسکتا۔ پہلے مسئلہ میں تو اختلاف ہے مگر دوسرے مسئلہ میں پر اتفاق ہے کہ عورت کا قاتل اگر مرد ہے تو عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا۔ حدیث میں ہے۔ المسلمون تیتکا فادماءھم کہ مرد عورت وضیع شریف الغرض سب مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ (قرطبی) اور الحر بالحر سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جاسکتا ہے یہ مسئلہ گومختلف فیہ ہے مگر صحیح یہ ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان قتل نہیں ہوسکتا جیسا کہ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ (سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے لمائدہ ح آیت 45) ف 1 آیت میں فمن میں من سے مراد قاتل ہے اور اخیہ سے مقتول ( جو مسلمان ہونے کے اعتبار سے اس کا بھائی ہے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف یعنی آسانی کے معنی یہ ہیں کہ پہلی امتوں میں دیت کا حکم نہ تھا بلکہ قصاص ہی لیا جاتا۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے دیت کی اجازت عطا فرماکر آسانی کردی۔ (قرطبی) اور پھر اس کے بعد جو زیا دتی کرے یعنی دیت پر راضی ہوجانے یا خون معاف کردینے کے بعد بھی قاتل کو مار ڈالے تو اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ حدیث میں ہے اگر کوئی شخص مارا گیا یا زخمی ہو اتو اسے تو اسے تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔ قصاص لے یادیت یا معاف کردے۔ فان ارادالرہ نعتہ فخذواعلی ید یہ۔ یعنی اگر وہ تین کے علاوہ کوئی چوتھا فعل کرنا چاہے تو تم اس کے ہاتھ پکڑ لو اس کے لیے نار جہنم ہے۔ (ابن کثری۔ بحوالہ مسند احمد )