وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
” اور جب پورے کام کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا سچا وعدہ ہوا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا اس کی خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تم کو بلایا تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری فریاد رسی کرنے والاہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرنے والے ہو، یقیناً میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا۔ یقیناً جو لوگ ظالم ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“
ف 6۔ ان لوگوں کو جو اسے الزام دیں گے کہ تو ہی نے ہمیں آفت میں پھنسایا۔ حسن (رح) سے مروی ہے کہ ابلیس قیامت کے دن جہنم میں آگ کے منبر پر کھڑا ہو کر یہ اعلان کرے گا اور تمام مخلوقات سن رہی ہوگی۔ (قرطبی)۔ ف 7۔ یعنی دوزخی دوزخ میں اور جتنی جنت میں جا چکے ہوں گے۔ (دیکھئے سورۃ مریم آیت 39)۔ ف 8۔ کہ آخرت آئے گی اور اس میں حساب کتاب ہوگا اور پھر نیک لوگوں کو نیک اور برے لوگوں کو برا بدلہ ملے گا۔ (قرطبی)۔ ف 9۔ کہ آخرت و اُخرت کوئی چیز نہیں ہے اور نہ کوئی حساب و جزا ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، چند روز زندہ رہ کر فنا ہوجانا ہے اس لئے جتنا عیش کرنا ہے یہیں جی بھر کے کرلو۔ (وحیدی)۔ ف 10۔ یعنی وہ تو محض فریب کاری تھی جس کے پورا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابلیس بلند آواز سے یہ پکارے گا اور اس کی مجلس عفونت سے لبریز ہوگی (قرطبی)۔ ف 11۔ کہ میں نے تمہیں زبردستی کفر وشرک کے راستے پر لگا دیا ہو۔ ف 12۔ کہ بلا دلیل ہی میرے پیچھے چلتے رہے۔ ایسے لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جن کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کی دلیل ہوتے ہوئے اس کے خلاف دوسری شخصیتوں کے اقوال و آراء کی پیروی کرتے ہیں کیا وہ بھی تو اس باطل کی پیروی نہیں کر رہے ہیں جس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔ اللھم غفرا۔ (شوکانی)۔ ف 13۔ اب نہ میں تمہارے کسی کام آسکتا ہوں اور نہ تم میرے کسی کام آسکتے ہو۔ (شوکانی)۔ ف 14۔ ظاہر ہے کہ شیطان کو اللہ کا شریک بنانا یہ نہیں ہے کہ اسے سجدہ کیا جائے اور معبود سمجھا جائے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسی کے طور طریق اختیار کئے جائیں۔