وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ
” اور جن لوگوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے کہنے لگے ہم ہر صورت تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا ضرور تم ہمارے دین میں واپس آؤ گے ان کے رب نے انکی طرف وحی کی کہ یقیناً ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے۔“
ف 2۔ ان کا یہ کہنا ان کے اپنے زعم کے مطابق ہے ورنہ یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیہم السلام منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوم کے دین کی پیروی کرتے تھے۔ بلکہ انہوں نے نبوت سے قبل انبیاء کے ان کے بتوں کی تردید سے خاموش رہنے کی بنا پر بطور خود یہ سمجھ لیا تھا۔ یا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دین میں داخل ہوجائو۔ (دیکھئے اعراف آیات 88)۔ یا خطاب ان لوگوں سے ہے جو پیغمبروں پر ایمان لائے۔ (رازی)۔