قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
” ان کے رسولوں نے کہا ہم نہیں ہیں مگر تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن اللہ احسان فرماتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ تمہارے پاس کوئی دلیل اللہ کے اذ ن کے بغیر لے آئیں اور پس لازم ہے کہ ایمان والے اللہ پربھروسہ کریں۔“
ف 7۔ یعنی سند دیکھے سے ایمان نہیں آتا اللہ کے دئیے سے آتا ہے۔ (موضح)۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبوت سراسر وہبی (اللہ کی دین) ہے کسی آدمی کی ریاضت اور محنت سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ بعض فلاسفہ اور ان سے متاثر لوگوں کا خیال ہے، یا ” احسان کرنے“ کے یہ معنی ہیں کہ وہ تلاوتِ قرآن اور اس کے فہم کی جسے چاہے تو فیق دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ساعت اپنے بندوں پر احسان کرتا رہتا ہے۔ اور سب سے بڑا احسان اس کا یہ ہے کہ بندے کے دل میں اپنا ذکر الہام کردے۔ (قرطبی)۔