سورة الرعد - آیت 11

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ نہیں بدلتا کسی قوم کو، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خود بدلے جو ان کے دلوں میں ہے اور جب اللہ کسی قوم پر مصیبت کا ارادہ کرلے تو اسے کوئی ہٹانے والا نہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں۔“ (١١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 13۔ یعنی خدا نے حکم کی بنا پر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ دو فرشتے دائیں بائیں اس کے نیک اور بد اعمال کا ریکارد جو انسان کی حفاظت و نگرانی پر مقرر ہیں۔ ان میں سے ایک اس کے آگے اور ایک اس کے پیچھے رہتا ہے۔ گویا کہ وہ ہر آن چار فرشتوں کے درمیان رہتا ہے۔ دن کے فرشتے اور ہوتے ہیں اور رات کے اور۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ان فرشتوں کی باری صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے اظہار سے مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ف 14۔ یعنی جب تک نیکی کی بجائے برائی اور اطاعت کی بجائے نافرمانی نہ کرنے لگیں البتہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نارمل کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں قوموں کی تباہی کا قانون بیان کیا گیا ہے افراد کا نہیں۔ کسی قوم کی چھپی یابری حالت کا تعین اس لحاظ سے کیا جائے گا کہ آیا اس میں اچھے لوگوں کا غلبہ ہے یا برے لوگوں کو ؟ رہے افراد تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص گناہ کرے تبھی اس پر عذاب نازل ہو بلکہ ایک بے گناہ شخص دوسروں کے گناہ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ صحابہ (رض) نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم نیک لوگوں کے رہنے کے باوجود ہلاک ہوسکتے ہیں۔ فرمایا :” ہاں جب برائی بہت ہوجائے۔ (از فتح تقدیر)۔ ف 1۔ چاہے وہ کوئی پیر ہو یا بزرگ یا بت یا جن یا فرشتہ۔