وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
” اور جب داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے ان کو حکم دیا تھا، وہ ان سے اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو ٹال نہیں سکتا تھا مگر یعقوب کے دل میں ایک خلش تھی جو اس نے پوری کی اور بلاشبہ وہ یقیناً بہت علم والا تھا، وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسے علم عطا کیا تھا اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (٦٨)
ف 1۔ یعنی اس سر الٰہی (تقدیر) کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اپنی تدبیر پر نازاں رہتے ہیں۔ یا پھر اللہ پر بھروسا کرنے کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ سرے سے کوئی تدبیر اختیار ہی نہ کی جائے جیسا کہ بعض متاخرین متصوفہ سے منقول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اگر تدبیر اور توکل کے مفہوم کو صحیح طور پر سمھے کر اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی تو وہ دراصل ہماری اس تعلیم کا نتیجہ تھا جو ہم نے اسے دی تھی یعنی بذریعہ وحی کے۔ (کذافی الروح) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : تقدیر پھر بھی ان پر آگئی۔ دفع نہ ہوئی، سوجن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچائو دونوں ہوسکتے ہیں۔ اور بے علم سے ایک ہی تو دوسرا نہ ہو۔ (۔۔)