وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
اور بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو نہیں ٹال سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور لازم ہے کہ اسی پر بھروسہ کرنے والے بھروسہ کریں۔“ (٦٧)
ف 7۔ نہ تو آیت کے الفاظ میں اس چیز کی تصریح ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی سے اس کا پتا چلتا ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ البتہ حضرات ابن عباس (رض) نے یہ حکم اس لئے دیا کہ انہیں نظر بد نہ لگ جائے حضرت شاہ صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں، یہ ٹوک (نظر بد) سے بچائو کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا۔ ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچائو کرنا درست ہے۔ (اھ) صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ المین حق۔ یعنی نظر بد کالگ جانا ایک حقیقت ہے۔ عہد نبوی میں بہت سے لوگوں کو نظر بد سے نقصان کو پہنچنا ثابت ہے۔ ایک حدیث میں نظر بد کی شدت تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : لوکان شئی سابق القدر لسبقتۃ۔ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرسکتی تو نظر بدسبقت لے جاتی۔ (شوکانی۔ روح)۔ ف 8۔ بلکہ اس نے جو کچھ تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہو خرابی سے بچنے کی تدبیر کرے۔ اگرچہ اصل بھروسا تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر ہونا چاہیے کیونکہ اسباب کی تاثیر بھی اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف ہے۔ پس تدبیر اصل اللہ تعالیٰ سے اسی کی طرف فرار کو دوسرا نام ہے۔ (کذافی الروح)۔ ف 9۔ یعنی میری طرح تم بھی اسی پر بھروسا کرو اور اپنی تدبیر پر غرور نہ کرو۔