قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
” اس نے کہا میں اسے تمہارے ساتھ ہرگز نہ بھیجوں گا، یہاں تک کہ تم میرے ساتھ اللہ کی قسم اٹھا کر پختہ عہد کرو کہ تم ہر صورت اسے میرے پاس لاؤ گے، مگر یہ کہ تمہیں گھیر لیا جائے۔ پھر جب انہوں نے پختہ وعدہ کرلیا تو اس نے کہا اللہ اس پر ضامن ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔“ (٦٦)’
ف 6۔ وہ سب سن رہا ہے لہٰذا جس نے خیانت اور بدعہدی کی وہ اس کے ہاں سخت سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ یا ہم جو کہہ رہے ہیں اسے پورا کرنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے یہ کہہ کر گویا ایک طرف ظاہری اسباب کے اعتبار سے وثوق حاصل کرلیا اور دوسری طرح بھروسا اللہ تعالیٰ پر کیا اور اللہ پر توکل کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔ (کذافی الموضح)۔