قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
اس نے کہا کیا اس کے معاملہ میں ویسا ہی اعتبار کروں جس طرح میں نے اس کے بھائی کے معاملہ میں اس سے پہلے تم پر اعتبار کیا، سو اللہ بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ (٦٤)’
ف 3۔ تم جب یوسف ( علیہ السلام) کو لے گئے تھے تب بھی تم نے یہی کہا تھا کہ ہم اس کی حفاظت کریں گے پھر تم نے اس کی اچھی حفاظت کی کہ آج تک اس بے چارے کی کوئی خیر خبر نہیں۔ ایسی ہی حفاظت اب تم اس بھائی کی کرنی چاہتے ہو۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ یعنی میں اسے بحالت مجبوری غلہ کی ضرورت کے پیش نظر تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ سو میں اسے تمہاری حفاظت میں نہیں بلکہ اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ وہی اپنی مہربانی سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔ (ابن کثیر)۔ کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو بھائیوں کے ساتھ بھیجتے وقت صرف یہ کہا تھا۔ انی خاف ان یاکلہ (مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں بھیڑیا اسے نہ کھا جائے) اس لئے آزمائش میں ڈال دئیے گئے۔ اب جو بنیامین کو فاللہ خیر حافظا وھو ارحم الرحمین۔ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دیا تو نہ صرف بنیامین بلکہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) بھی مل گئے۔ (ازوحیدی)۔