إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر صفا مروہ کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے
ف 1 صفا اور مروہ مسجد حرام کے قریب دو چھوٹی پہاڑیوں کے نام ہیں۔ ان کے درمیان سعی کرنا حضرت ابراہیم کے زمانہ سے مناسک حج وعمرہ شامل تھا مگر زمانہ جاہلیت میں مشر کین نے حج اور عمرہ کے منا سک میں کئی رسوم شرکیہ شامل کرلی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ صفا اور مروہ پر دوبت نصب کر رکھے تھے۔ ایک کا نام اساف اور دوسے کا نائلہ تھا جب ان کے درمیان سعی کرتے۔ تو ان بتوں کا استلام بھی کرتے۔ مسلمان ہونے کے بعد ان کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ یہ سعی محض جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ اسے نہیں کرنا چاہیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ سعی کے ضرور ہونے پر تو مسلمان متفق تھے تاہم آیت کے ظاہری الفاظ دیکھ کر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ سعی نہ بھی کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ حضرت عروہ نے اپنی خالہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے اس شبہ کا اظہار کیا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اگر آیت کا یہی مفہوم ہوتا تو قرآن میں ان لا یطوف بھما ہونا چاہیے تھا، پھر حضرت عائشہ (رض) نے مزید وضاحت کے لیے بیان فرمایا کہ عرب کے بعض قبائل (ازد، غسان) منات الطاغیہ بت کی پوجا کرتے تھے۔ یہ بت انہوں نے مشلل پہاڑی پر نصب کر رکھا تھا یہ لوگ حج کے لیے جاتے تو اس بت کے نام کا تلبیہ کرتے اور اس کا طواف کرتے اور مکہ میں پہنچ کر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد اس بارے میں انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمادی ہے۔ اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان اللہ کتب علیکم السعی فاسعوا کہ اللہ تعالیٰ نے سعی فرض کردی ہے۔ لہذا سعی کرو اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع میں فرمایا : لتاخذوا اعنی منا سککم کہ مجھ سے منا سک حج سیکھ لو اور ان میں سعی بھی داخل ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی )