سورة یوسف - آیت 42

وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جس کے متعلق اس نے سمجھا تھا کہ یقیناً وہ دونوں میں سے رہا ہونے والا ہے۔ اس سے کہا کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا۔ شیطان نے اسے اس کے مالک سے ذکر کرنا بھلا دیا وہ کئی سال قید خانے میں رہے۔“

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2۔ کشفِ شدائد میں گو دوسروں سے مدد لینا جائز ہے جیسا کہ آیتİوَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰĬ سے بھی معلوم ہوتا ہے مگر یہ عزیمت اور شان پیغمبر کے خلاف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت یوسف (علیه السلام) نے اس بات کی کوشش کی کہ میرا تذکرہ بادشاہ کے پاس کرنا مگر وہ بھول گیا تاکہ پیغمبر کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے۔ (از موضح)۔ ف 3۔ ” بِضۡعَ “ (چند یا کئی) کا اطلاق عربی زبان میں تین سے نو تک مگر زیادہ ترسات پر ہوتا ہے اس لئے اکثر مفسرین : کا کہنا یہی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سات سال تک جیل میں رہے۔ (معالم) بعض علمائے تفسیر (رح) نے فَأَنسَىٰهُ میں ” ہ“ کی ضمیر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے مانی ہے اور معنی یہ کئے ہیں کہ ” شیطان نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے رب کی یاد بھلا دی“ اور اس کی تائید میں ایک روایت بھی پیش کی ہے کہ ” اگر یوسف ( علیہ السلام) اللہ کو چھوڑ کر دوسروں پر رہائی کی امید نہ رکھتے تو اتنی لمبی مدت قید میں نہ ٹھہرتے‘ مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے لہٰذا یہ معنی صحیح نہیں ہیں۔ (ابن کثیر)۔