وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
” اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر یہ بات نہ ہوتی جو تیرے رب کی طرف سے پہلے ہوچکی ہے تو ان کے بارے میں ضرور فیصلہ کردیا جاتا اور یقیناً لوگ اس کے بارے میں بے قرار رکھنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔“
ف 3۔ یعنی ان کی بت پرستی کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 4۔ اہل سعادت و شقاوت کا حال بیان کرنے کے بعد آخر میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر آج یہ لوگ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو آپﷺ بددل اور کبیدہ خاطر نہ ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے توراۃ کے ساتھ بھی لوگ یہی معاملہ کرچکے ہیں۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ یا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے تو اب تک ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا۔ (شوکانی) شاہ صاحب لکھتے ہیں“ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو۔ (از موضح)۔ ف 6۔ یعنی سخت خلجان میں پڑے ہوئے ہیں۔