قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
ہم تمہارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں سو ہم تمہیں اس قبلہ کی جانب پھیرے دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا چہرہ اسی طرف کرلیا کریں۔ اہل کتاب جانتے ہیں کہ یہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے
ف 7 یعنی تمہیں دونوں قبلوں کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ (ابن کثیر) بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عہ بن عازب اور ترمذی ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ تحویل پر مسلمان ان لوگوں کو متعلق تشویش میں پڑگئے جو اس سے قبل وفات پا چکے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کو تسل دی۔ (ابن کثیر) نماز، نیت، قول اور عمل جو ارح پر مشتمل ہے اور ان تینوں کے مجموعہ کا نام ایمان سے اس لیے نماز کو ایمان فرمایا۔ (قرطبی) ف 8 یہ تحویل قبلہ کا صل حکم ہے مکہ میں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں رکنوں کے درمیان کھڑے ہو کر صخرہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے اس طرح نماز پڑھتے رہے کہ کعبہ بھی سامنے ہوتا اور دونوں طرف رخ ہوجاتا مگر مدینہ پہنچ کر بیک وقت دونوں کی طرف کرنا ممکن نہ رہا۔ آپ کو خواہش پر تحویل کا حکم آیا جیسا کہ مذ کور ہوا۔ (ابن کثیر) مسجد نبوی میں کعبہ کی طرف منہ کر کے سب سے پہلے نماز عصر ادا کی گئی۔ بعض علمان نے تفسیر نے لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھارہے تھے کہ تحویل کا حکم نازل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی آخری دورکعت کی طرف رخ پھیر کر ادا کیں اس لیے کو مسجد البلتین کہا جاتا ہے یہ قصہ بعض روایات میں، مذکور ہے۔ (قرطبی) ف 9 اس میں کو تہدید ہے۔ یعنی یہود اپنی کتابوں کی پیش کوئی کی بنا پر خوب جانتے ہیں کہ نبی آخرزلزمان کا قبلہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ ہوگا مگر وہ کفر حسد اور عناد کی بنا پر لتمان کر رہے ہیں۔ (ابن کثیر)