سورة البقرة - آیت 144

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں سو ہم تمہیں اس قبلہ کی جانب پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا چہرہ اسی طرف کرلیا کریں۔ اہل کتاب جانتے ہیں کہ یہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7: یعنی تمہیں دونوں قبلوں کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ (ابن کثیر) بخاری میں حضرت براء بن عازب اور ترمذی میں ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ تحویل پر مسلمان ان لوگوں کو متعلق تشویش میں پڑگئے جو اس سے قبل وفات پا چکے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کو تسلی دی۔ (ابن کثیر) نماز، نیت، قول اور عمل جو ارح پر مشتمل ہے اور ان تینوں کے مجموعہ کا نام ایمان هے اس لیے نماز کو ایمان فرمایا۔ (قرطبی) ف 8 : یہ تحویل قبلہ کا اصل حکم ہے مکہ میں تو آنحضرت (ﷺ) دونوں رکنوں کے درمیان کھڑے ہو کر صخرہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے اس طرح نماز پڑھتے رہے کہ کعبہ بھی سامنے ہوتا اور دونوں طرف رخ ہوجاتا مگر مدینہ پہنچ کر بیک وقت دونوں کی طرف رخ کرنا ممکن نہ رہا۔ آپ کی خواہش پر تحویل کا حکم آیا جیسا کہ مذ کور ہوا۔ (ابن کثیر) مسجد نبوی میں کعبہ کی طرف منہ کر کے سب سے پہلے نماز عصر ادا کی گئی۔ بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ آنحضرت (ﷺ) مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھارہے تھے کہ تحویل کا حکم نازل ہوا اور آپ (ﷺ) نے ظہر کی آخری دورکعت كعبہ کی طرف رخ پھیر کر ادا کیں اس لیے مسجد بنی سلمہ كو مسجد القبلتین کہا جاتا ہے یہ قصہ بعض روایات میں، مذکور ہے۔ (قرطبی) ف 9 : اس میں یہود كو تہدید ہے۔ یعنی یہود اپنی کتابوں کی پیش گوئی کی بنا پر خوب جانتے ہیں کہ نبی آخرالزمان کا قبلہ مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ ہوگا مگر وہ کفر حسد اور عناد کی بنا پر كتمان کر رہے ہیں۔ (ابن کثیر)