أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
” تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہو اور اس کی طرف سے ایک گواہ اس کی تائید کر رہا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی جو پیشوا اور رحمت تھی۔ یہ لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ان گروہوں میں سے جو اس کا انکار کرے۔ آگ ہی اس کے وعدے کی جگہ ہے۔ سو آپ اس کے بارے میں کسی شک میں نہ رہیں۔ یقیناً یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے اور اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ (١٧)
ف 8۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی دل میں اس کا نور اور مزہ پاتا ہے اور قرآن کی حلاوت۔ (موضع) ف 9۔ وہ شخص اس کی طرح ہوگا جس کے پیش نظر دنیا اور اس کی خوشحال اور فارغ البالی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں کی حالت یکساں نہیں ہوسکتی۔ (ازوحیدی)۔ ف 10۔ جو لوگ عقل سلیم سے کا لیتے ہیں اور خدا کا گواہ بھی ان کو پہنچ چکا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ توراۃ میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں کیا بشارتیں اور علامات بیان کی گئی ہیں۔ (وحیدی)۔ ف 11۔ یہ وعید تمام گروہوں (اہلِ ایمان) کے لئے ہے جو بھی قرآن سے روگردانی اور اس کے احکام سے انکار کرے گا خواہ نام کے اعتبار سے مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ (ت۔ ن)۔ ف 21۔ بظاہر خطاب آنحضرتﷺ سے ہے اور مراد دوسرے لوگ ہیں۔ (قرطبی)۔