تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
یہ ایک امت تھی جو گزر چکی ہے جو انہوں نے کیا ان کے لیے اور جو تم نے کیا تمہارے لیے ہے۔ تمہیں ان کے عمل کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا
ف 6: اس آیت میں دوبارہ تنبیہ اور تہدید کی ہے کہ آخری نجات اور سعادت کا تعلق تو کسب و عمل پر ہے اگر نجات چاہتے ہو تو عمل صالح میں ان انبیاء اور صالحین کی اتباع کرو ورنہ محض ان شخصیتوں کی طرف انتساب اور ان کی کرامتیں بیان کرنا چنداں مفید نہیں ہو سکے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ(مَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ) کہ جس کے عمل نے اسے پیچھے رکھا اس کا نسب آگے نهیں بڑھا سکے گا۔ (ابن کثیر) اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو خود بے عمل رہ کر اپنے بزرگوں کے اعمال پر تکیہ کر کے اپنے آپ کو بے بنیاد اور غلط قسم کی آرزؤں میں مگن رکھتے ہیں۔ (ترجمان )