قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
” فرمایا بلا شبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے، پس دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستے کی پیروی نہ کرنا جو نہیں جانتے۔“
ف 3۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) آمین کہہ رہے تھے۔ اس لئے دونوں کی طرف اضافت کردی۔ (شوکانی)۔ ف 4۔ یعنی دعوت کا کام کرتے رہو۔ آخر کار تمہاری دعا کا اثر ظاہر ہو کر رہے گا۔ (شوکانی)۔ ف 5۔ جو دعوت کے کام میں حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں یا دعا کرتے ہی یہ چاہتے ہیں کہ ان کا مطلب پورا ہوجائے اور اگر فوراً پورا نہ ہو تو شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے بہتیری دعائیں کیں مگر پروردگار نے قبول ہی نہ کی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدی نہیں کرتا اور جلدی کرنا یہ ہے کہ وہ گبھرا کر کہتا ہے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی مگر اس نے قبول نہ کی۔ (بخاری مسلم)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی شتابی نہ کرو حکم کی راہ دیکھو۔ “