الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔“ (٦٣) ”
ف 6۔ یعنی انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق اپنے اعتقاد کو درست کیا۔ ف 7۔ یعنی تنیک اعمال کرتے اور گناہوں سے بچتے رہے۔ اُو پر کی آیت میں اولیا اللہ (اللہ کے دوستوں) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انہیں نہ کوئی ڈر ہوگا اور نہ غم۔ اس آیت میں اولیاء اللہ کی خود تشریح فرمادی اور وہ یہ کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ قرآن و سنت کیمطابق درست ہے اور جن میں تقویٰ پایا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر انسان جو اپنے اندر عقیدہ و عمل کی صحت پیدا کرلے گا وہ اللہ کاولی ہوسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عقیدہ و عمل میں اخلاص کے اعتبار سے لوگوں کے مراتب ہوں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے ارشاد نبوی منقول ہے کہ ” اولئا اللہ“ وہ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ (درمنشور) عام لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے جس سے کوئی امر فرق عادت صادر ہو وہ اللہ کا ولی ہوتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ خرق عادت امور تو شیطانوں سے بھی صادر ہوجات ہیں۔