سورة البقرة - آیت 132

وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ابراہیم اور یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یہاں الدین" سے ملت اسلام مراد ہے جیسا کہ آیت کے خاتمہ میں صراحت ہے اس آیت میں دین اسلام یا توحید پر سختی سے کار بند رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ خاتمہ بھی اسی پر ہو۔ (فتح القدیر) اس حالت پر موت گر انسان کے اختیار کی چیز نہیں ہے کہ کو نکہ نیک خاتمہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے عموم ہوتا یہ ہے کہ انسان اپنے دل لگاؤ کے ساتھ راستہ بھی اختیار کرلیتا ہے موت بھی اسی حالت پر ہوتی ہے کیونکہ اللہ کریم کی سنت یہی ہے کہ انسان نیک یا بد جو راستہ بھی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کی توفیق دیدی جاتی ہے۔ ( دیکھئے آیت اللیل 5؛10) ( ابن کثیر تبصرف) ان آیات میں بھی یہود ونصاری اور مشر کین مکہ کی تردید جو اپنے آپ و حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ان کا دین بھی یہی یہودیت اور نصراینت تھا۔ قرآن نے بتایا ہے کہ تم ان بزرگوں پر بہتان باندھ رہے ہو ان کا دین بھی یہی اسلام تھا جس میں توحید اور اخلا ص کی تعلیم دی گئی ہے۔