وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
” اور وہ لوگ جنھوں نے مسجد بنائی تکلیف دینے اور کفر پھیلانے اور ایمان والوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے لیے اور گھات لگانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کی اور یقیناً وہ ضرور قسمیں اٹھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا کچھ ارادہ نہیں کیا اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں۔“
ف 4۔ یہ اور اس کے بعد کی چند آیات کی شان نزول یہ ہے کہ آنحضرت کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے قبل قبیلہ خزرج میں ایک شخص حنظلہ غسیل ملائکہ کا والد ابوعامر راہب نامی تھا۔ رسول اللہ (ﷺ) اسے راہب کی بجائے فاسق فرماتے۔ اس نے جاہلیت میں عیسائی بن کر راہبانہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ لوگ اس کی درویشی کے معتقد تھے اور اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ آنحضرت (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں نے ایک جمعیت کی شکل اختیار کرلی اور اس متحدہ طاقت نے جنگ بدر میں بھی کفار کو شکست فاش دی تو یہ دیکھ کر ابو عامر چراغ پا ہوگیا اور اسلام دشمنی پر کمر باندھ لی۔ اس کے بعد مکہ پہنچا اور قریش کو آنحضرت (ﷺ) کے خلاف جنگ پر ابھارتا رہا حتی کہ معرکہ احد پیش آیا۔ اس جنگ میں اس بدبخت نے دو گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک میں گر کر نبی (ﷺ) زخمی ہوئے تھے۔ نبی (ﷺ) نے اس کے حق میں بد دعا بھی کی تھی کہ وہ اپنے وطن سے دور تنہا اور بیکسی کی موت مرے۔ چنانچہ بالآخر جنگ حنین کے بعد جب اس نے دیکھا کہ اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں۔ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کو عروج حاصل ہوگیا ہے تو وہ بھاگ کر عیسائیوں کے بادشاہ ہر قل کے پاس پہنچ گیا تاکہ اس سے مسلمانوں کے خلاف مدد حاصل ہوجائے۔ ہر قل نے اس سے مدد کا وعدہ بھی کرلیا اس لیے اس نے مدینہ کے منافقین کو لکھا کہ میں عنقریب ایک لشکر جرار لے کر محمد ( ﷺ) سے لڑنے آرہا ہوں۔ تم فی الحال ایک الگ اڈہ قائم کرو جہاں اسلام کے خلاف سازشیں کی جا سکیں اور میرے ساتھ رابطہ قائم رکھ سکو۔ چنانچہ منافقین نے مسجد قبا کے قریب مسجد کے نام سے ایک اڈہ بنانا شروع کردیا اور اس کی تکمیل کے بعد مسلمانوں کے قلوب سے شک و شبہ دور کرنے کے لیے آنحضرت (ﷺ) کو دعوت دی کہ یہاں تبرک کے طور پر ایک نماز پڑھا جائیں۔ نبی (ﷺ) اس وقت تبوک روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے اس لیے آپ نے فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو واپسی پر میں تمہاری مسجد میں آکر نماز پڑھوں گا۔ جب آنحضرت (ﷺ) تبوک سے واپس ہو کر مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو حضرت جبرائیل یہ آیات لے کر نازل ہوئے جن میں اس مسجد ضرار کا پول کھولا گیا ہے۔ آپ نے مالک بن دخشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ اس جگہ کو جس کا نام ازراہ فریب مسجد رکھا گیا جا کر فوراً پیوند خاک کردیں۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس جگہ کو فوراً جلا کر ختم کردیا۔ اس جگہ مَنۡ حَارَبَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ سے یہی بد بخت ابو عامر مراد ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر)