وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا دے اور یہاں کے رہنے والوں کو جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں۔ انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے کفر کیا اس کو بھی میں تھوڑا فائدہ دوں گا پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا۔ جو لوٹنے کی بد ترین جگہ ہے
ف 1 اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا زکر ہے جو انہوں نے منصب امامت کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور مکہ معظمہ کو ان والا شہر قرار دے دیا۔ اب حرم کی حدود میں اس کے درختوں کو کا ٹنا۔ شکار کو بھگانا وغیرہ جائز نہیں ہے۔ دوسری دعا میں مومنوں کے لیے پھلوں کے رزق کی دعا کی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کا معاملہ امامت سے مختلف ہے۔ دنیا میں رزق ہر مومن کافر کو ملے گا مگر آخرت میں کفار کو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یادرہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اسمعیل (علیہ السلام) کے مکہ سکونت اختیار کرلینے اور حضرت اسحق (علیہ السلام) کی پیدا ئش کے بعد کی تھی حضرت اسحق (علیہ السلام) حضرت اسمعیل (علیہ السلام) سے تیرہ سال چھوٹے تھے۔