سورة التوبہ - آیت 79

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” صدقات میں فراخ دلی سے حصہ لینے والے ایمانداروں پر جو لگ طعن کرتے ہیں اور لوگوں پر جو اپنی محنت کے سواکچھ نہیں پاتے وہ انہیں مذاق کرتے ہیں اللہ ان سے مذاق کرے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ (٧٩)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چندہ کی اپیل کی تو بڑے بڑے مالدار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے لیکن جب مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لاکر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کے پاس کل آٹھ ہزار درہم تھے انہوں نے چاہزار درہم لاکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیئے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت عاصم (رض) نے مزدوری کر کے آٹھ سیر جو حاصل کئے۔ ان میں سے چار سیر جو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چندہ دیا۔ منافقین آپس میں کہنے لگے کہ عبد الر حمن کو ریا ونمود مطلوب ہے اور عاصم (رض) اپنے آپ کو خواہ مخواہ چندہ دینے والوں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ منافقین کے اسی طعن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ ( از بن کثیر، قر طبی وغیرہ) ف 3 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اللہ نے ان پر ٹھٹھامارا لیکن مطلب یہی ہے کہ اللہ نے بھی ان کے ٹھٹھے کا بدلہ دیا، یعنی انہیں ذلیل وخوار کیا اور مسلمانوں کو ان پر ہنسایا۔ ( وحیدی )