سورة التوبہ - آیت 61

وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو نبی کوتکلیف دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان کا کچا ہے۔ فرما دیں وہ تمہارے لیے خیر کا کان ہے اللہ پر اور مومنوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور ایمان والوں کے لیے رحمت ہے اور جو لوگ اللہ کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4 یعنی کان کا کچا ہے۔ ہر ایک کی بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتا ہے ( از کبیر) ف 5 یعنی ہاں تمہاری بات اس حد تک صحیح ہے کہ محمد (ﷺ) ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں مگر یہ الزام صحیح نہیں ہے کہ ہر بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ اعتبار صرف اس بات کا کرتے ہیں جو سچی اور حقیقی ہوتی ہے جھوٹی با ت کو سن تو لیتے ہیں مگر اس پر صبر اور در گزر سے کام لیتے ہیں۔ یہ چیز تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ یہ جھوٹی بات سن کر اگر اس پر فورا ًمواخذہ کرنے والے بھی ہوتے تو تم اپنے جھوٹےعذروں کی بنا پر یا تو کبھی کے قتل ہوچکے ہوتے۔ یا مدینہ سے باہر نکال دیے گئے ہوتے ( ازکبیر) ف 6 یہاں ایمان والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں چاہے دل سے ایمان دار نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے رحمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (ﷺ) ان کے راز کھولتے نہیں بلکہ انہیں اپنی اصلاح کرلینے کا موقع دیتے ہیں، ( فتح القدیر )