إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
” صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر کے لیے یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والاہے۔“
ف 3 منافقین کا طعن دور کرنے کے لیے مصارف صدقات بیان فرما دیئے کہ تقسیم صدقات میں پیغمبر کو اختیار نہیں ہے لہذا پیغمبر پر طعن بے سود ہے۔ اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے ہیں اور وہ بھی کلمہ إِنَّمَاکے ساتھ جوحصر کے معنی دیتا ہے یعنی اصناف ثمانیہ ( آٹھ قسم کے لوگوں) کے علاوہ اور کسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔۔ اس حصر کی اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ آنحضرت (ﷺ) سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : اگر تو ان آٹھ قسموں میں سے ہے تو تیرا حق بنتا ہے ورنہ نہیں۔ اور فرمایا : غنی اور تندرست توانا کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔ ( ابن کثیر) 1۔ فقیر اور مسکن 2۔ دونو کے معنی حاجتمند کے ہیں۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے مسکین کی تشریح کرتے ہو فرمایا : مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہ پاتاہو، نہ اپنی احتیاج ظاہر ہونے دیتا ہو۔ اور نہ سوال ہی کرتا ہو۔ ( بخاری مسلم) 3۔ عاملین سے مرا وہ لوگ ہیں جو صدقات وصول کرنے پر مامور ہوں، ان کی تنخواہ زکوٰۃ کی مد سے دی جاسکتی ہے۔ چا ہے وہ محتاج نہ بھی ہوں۔ 4۔ ۡمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمۡسے مراد وہ لوگ ہیں جن کواسلام پر ثابت قدم رکھنا مطلوب ہو۔ اس بارے میں امام (خلیفہ) کو اختیار ہے کہ جیسے مناسب سمجھے ان پر خرچ کرے ف5۔وَفِي ٱلرِّقَابِ غلاموں کی آزادی حاصل کرنے میں۔ دی جائے۔ 6۔ غٰرِمِينَسے مراد وہ قرضدار ہیں جو اپنے مال سے پوراقرض ادا کریں تو فقیر ہوجائیں7۔وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ (اللہ کی راہ میں)سے مراد جمہور سلف کے نزدیک صرف جہاد اور غزوہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مجاہد کی زکوٰۃ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ( ابو داؤؤد) ٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۖ ( مسافر) یعنی اگر اثنائے سفر کسی حادثہ سے اس کا مال تباہ ہوگیا ہو اور گھر سے سفر خرچ منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو تو مال زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ زکو ٰۃ کے ان تمام مصارف میں زکوٰۃ صرف کرناواجب نہیں ہے بلکہ حسب ضرورت ان میں سے بعض مصارف میں زکوٰۃصرف کی جا سکتی ہےاور آنحضرت (ﷺ) نے اس کی اجا زت دی ہے۔ ( کتاب السوال لا بی عبید بروایت حضرت معاذ)