يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! کیا ہوگیا ہے تمہیں کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کے راستہ میں نکلوتوتم زمین کی طرف بوجھل ہوجاتے ہو؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پرخوش ہوگئے ہو ؟ دنیا کی زندگی کا سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑا ہے۔‘
ف 4 یعنی نکلنے سے ہچکچاتے ہو اور گھروں میں بیٹھے رہنا پسند کرتے ہو، کفار کے قبائح بیان فرمادینے کہ بعد جب ان کے خلاف جہادکی ترغیب دی اور فرمایا جب ان کے خلاف جہاد ضروری ہونے کے اتنے اسباب موجود ہیں اور اس میں فوائد بھی ہیں تو پھر محض دنیا کے حقیر مفاد کی خاطر جہاد نہ کرنا انتہائی کمزوری ہے ( کبیر) علمائے تفسیر (رح) اس پر متفق ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں پر عتاب ہے جنہوں نے نبی (ﷺ) کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں پس وپیش کی تھی۔ وا ضح رہے کہ غزوہ تبوک کا واقعہ فتح مکہ کے بعد 9 ھ میں طائف سے واپسی پر پیش آیا۔ ان دنوں سخت گرمی کا موسم تھا اور کھجوریں پک رہی تھیں اس لیے بعض نام کے مسلمان جہاد پر روانہ ہونے سے جی چرانے لگے اس غزوہ کا پس منظر یہ تھا کہ جب اسلامی سلطنت کا دائرہ سارے ملک عرب میں پھیل گیا تو ملک شام پر قبیلہ غسان حکمران تھا جو شاہ روم کے تابع تھا وہ اس کی فکر میں لگا کہ شاہ روم کو بلا کر عرب پر چڑھائی کی جائے، نبی (ﷺ) کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ (ﷺ) نے ارادہ فرمایا کہ ملک شام کی سرحد پر پہنچ کر رومی فوجوں کو عرب پر حملہ آور ہونے سے رکا جائے، اس سلسلہ میں آپ (ﷺ) نے شاہ روم کو خط بھی لکھا جس میں اسے دین اسلام کی دعوت دی اور وہ اسلام لانے پر آمادہ بھی ہوگیا لیکن اس کی قوم نے اس کا ساتھ نہ دیا اس لیے وہ اسلام سے محروم رہا۔ جب شام والوں نے نبی (ﷺ) کے ارادہ کی خبر پائی تو شاہ روم کو اطلاع دی لیکن اس نے مدد کرنے کی ذمہ داری قبول نہ کی۔ آنحضرت (ﷺ) مسلمانوں کو لے کر تبوک تک تشریف لے گئے لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی اور اس علاقہ کے لوگوں نے اطاعت قبول کرلی اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے پھر حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں سارا ملک شام فتح ہوا۔ ( مختصر از مو ضح) ف 5 کیونکہ دنیا فانی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی کتنا پانی لے کر پلٹتی ہے، ( مسلم) دوسری حدیث میں ہے (اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ)۔ کہ یا اللہ زندگی صرف آخرت کی ہی زندگی ہے۔ ( بخاری مسلم )