أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
” یاتم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیے جاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور نہ اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے سوا کسی کو راز دار بنایا اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔“
ف 8 یعنی انتہائی محبوب اور دوست، اس شرط کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ جہاد میں تو منافق بھی شریک ہوجاتے ہیں مگر یہ جہاد مقبول نہیں ہوتا تا وقتیکہ ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کی خیر خواہی نہ ہو۔ ( ابن کثیر) ف 9 مطلب یہ ہے کہ تمہیں یقینا آزمائش کی بھٹی سے گزار کر رہے گا تاکہ پتہ چل جائے کہ تم میں وقعی کون سچا اور مخلص تھا اور کون جھوٹا اور منا فق، اشارہ ہے اس طرف کہ جہاد کی مشرو عیت کی ایک حکمت مؤمنین کی ثابت قدمی کو جا نچنا بھی ہے، یہ معنی نہیں ہیں کے آزمائش بغیر کوئی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا، ( نیز دیکھئے سورہ عنکبوت آیت 1۔3 و آل عمران آیت 179)