أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
” کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑوگے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے ہی پہلے تم سے ابتدا کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو اگر تم ایمان رکھنے والے ہو۔“ (١٣)
ف 4 اوپر کی آیت میں ائمہ کفر کے ساتھ مقاتلہ کا حکم تھا۔ اب اس آیت میں اس مقاتلہ کے وجوہ واسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوتے تین اسباب بیان فرمائے ہیں۔ نقض عہد کی صلح حدیبہ ہوجا نے کے بعد بھی ہو بنو خزاعہ کے خلاف ( جو مسلمانوں کے حلیف تھے) بن بکر کی پیٹھ ٹھو نکتے اور اسلحہ وغیر سے ان کی مدد کرتے رہے حلا نکہ ان کا ایسا کرنا صلح کے معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو ملک سے نکال دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف منصوبے سوچتے رہے جیسا کہ سورۃ انفعال آیت 30) میں گزر چکا ہے اور پھر بدر کے موقع پر جب ان کا تجارتی قافلہ گیا بچ گیا تھا تو انیں واپس چلاجا چاہیے تھا لیکن یہ نہیں گئے اور انہوں نے خواہ مخواہ جنگ چھیڑ ی۔ ف 5 کیونکہ نفع ونقصان اس کے ہاتھ میں ہے اور جب وہ لڑنے کا حکم دے رہا ہے تو تمہیں ضرور لڑنا چاہیے ( وحیدی )