سورة الانفال - آیت 45

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم کسی گروہ کا مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 یعنی صرف اسی پر بھروسہ کرو اسی سے مددطلب کرو کیونکہ فتح ونصرت کا انحصار ظاہر اسباب پر نہیں بلکہ دل کی استقامت اللہ کی یاد اور اس کی حکم بر داری پر ہے۔ اسی لیے طالوت کے ساتھیوں نے دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت یہ دعا کی تھی،İ رَبَّنَآ ‌أَفۡرِغۡ عَلَيۡنَا صَبۡرٗا وَثَبِّتۡ أَقۡدَامَنَا وَٱنصُرۡنَا عَلَى ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡكَٰفِرِينَ Ĭ اے ہمارے رب ہمیں صبر کی توفیق دے ہمارے قدم جما دے اور ان کافروں پر ہمیں فتح نصیب کر۔ (بقرہ :250) حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا دو وقت دعارد نہیں هوتی ،ایك اذان کے وقت دوسرے دشمن سے لڑائی کے وقت ( الحاکم بسند صحیح) یہاں ثبات سے مقصود انتهائی بے جگری سے لڑ نا ہے۔ لہذا یہ آیتİ إِلَّا ‌مُتَحَرِّفٗا لِّقِتَالٍ أَوۡ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٖ Ĭ کے خلاف نہیں ہے بلکہ بعض اوقات تحرف اور تحیز ہی ثبات کے حصول کا موجب بن جاتا ہے ،( کبیر )