سورة الانفال - آیت 39

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ جو کچھ وہ کررہے ہیں اسے خوب دیکھنے والاہے۔ (٣٩)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 8 یا مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا ختم ہوجائے۔ لفظ فتنہ کے لغوی معنی تیانے اور آزمانے کے ہیں اس لیے اس سے مراد شرک بھی ہوسکتا ہے اور مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیر نے کے لیے ستانا بھی مفسرین نے اس کے یہ دونوں مطلب بیان کئے ہیں۔ ( از ابن کثیر) ف 9 یعنی سب مذاہب پر اسلام کا غلبہ ہوجائے جیسا کہ نزول مسیح ( علیہ السلام) کے وقت ہوگا۔ اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کرتارہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہیں ہوجاتے چنانچہ جب وہ اس کے قائل ہوجا ئیں گے تو مجھ سے اپنے خون اور مال بچالیں الہ یہ کہ ان پر کوئیک اسلام کا قانونی حق عائد ہوتا ہو تو وہ ان سے وصول کیا جائے گا۔ اور ان کا حساب و کتاب ( یعنی جس حد تک دلوں کی حالت کا تعلق ہے) اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ (بخاری ومسلم) ف 10 جیسے کام کریں گے ویسا ہی بد لہ ان کو دیا جائے گا ( از وحیدی )