إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
” مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
ف 2 اوپر بیان فرمایا کہ ایمان اطاعت کو مستلزم ہے۔ اب اس آیت میں امور طاعت کی تفصیل فرمادی ہے’’ توکل ‘‘کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اصل اعتماد اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر كیا جائے ۔یهی ایمان كا صحیح تقاضا بھی هے ۔اس توکل کے باعث جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت نازل ہوگی اس کے ساتھ تمہارا یمان بھی بڑے گا ۔معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی پیشی ہوتی ہےاجزاء ایمان کے اعتبار سے بھی جیسا کہ حدیث شعب ایمان میں ہے اور دلائل کی کثرت اور قوت سے بھی جیسا کہ حدیث میں ہے(لو وُزِنَ إيمانُ أبي بكرٍ بإيمانِ أهلِ الأرضِ لرَجَحَ )، کہ حضرت ابو بکر (رض) کا ایمان کا ایمان تمام اہل زمین کے ایمان سے بھاری ہے اہل حدیث کا یہی مسلک ہے ( کذافی ابن کثیر، کبیر )