يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
” آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا وہ آسمانوں اور زمین پربھاری واقع ہوئی ہے تم پر اچانک ہی آئے گی آپ سے یوں پوچھتے ہیں جیسے آپ اس کی خوب تحقیق کرچکے ہوں فرمادیں اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔“
ف 14 تو حیدو نبوت اور قضا وقدر پر کلام کے بعد بعث ما بعد الموت پر گفتگو ہو رہی ہے کیونکہ قرآن میں یہ امور اربعہ اصول وکلیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ( رازی ) ف 1 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ زمین و آسمان اس کی دہشت سے کا نپتے ہیں یا یہ کہ کسی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل ( علیہ السلام) کو اس کے وقوع کا علم نہیں ہوسکتا۔ ( رازی) حدیث جبر یل میں آنحضرت (ﷺ) نے صرف اشراط ساعت بیان فرمائی ہیں اور دوسری روایات میں نزول عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آثار قیامت میں سے قرار دیا ہے مگر ان کے وقو ع کے بعد بھی قیامت اچانک اور دفعةً واقع نہیں ہوگی، ( کبیر) ف 2کہ قیامت کے وقوع کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے یہ لوگ آپ (ﷺ) سے باربار اس طرح پو چھتے ہیں ہیں جیسا کہ آپ (ﷺ) نے کرید اور جستجو کے بعد اس کا پورا پورا علم حاصل کرلیا ہے۔