سورة الاعراف - آیت 172

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کیا میں واقعی تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔ (١٧٢)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 12) یعنی جب وہ آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کیا تو ان کی پشت سے تمام ذریت پیدا کی جو قیامت تک انکی نسل سے روئے زمین پر پائی جانے والی تھی اور انہیں عقل اور قوت گو یائی عطا فرماکر ان سے اپنی ربوبیت عامہ کا قرار لیا۔ حاٖفظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ذراول کے بارے متعدد احادیث بھی ورد ہیں لہذا اس کو ایک تمیثلی واقعہ کہنا صحیح نہیں ہے جبکہ عقلا بھی اس میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ اور حدیث کل مو لود یو لد علی الفطرۃ کسر بچہ فرطت اسلام پر پیدا ہوتا ہے) میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ( قرطبی، ابن کثیر )